» » » مجھے خوف ہے یہ تہمت، مرے نام تک نہ پہنچے؛ پوری غزل پرھیں

غم عاشقی سے کہہ دو، رہِ عام تک نہ پہنچے
مجھے خوف ہے یہ تہمت، مرے نام تک نہ پہنچے

میں نظر سے پی رہا تھا، تو یہ دل نے بددعا دی
تیرا ہاتھ زندگی بھر کبھی جام تک نہ پہنچے

وہ نوائے مضمحل کیا، نہ ہو جس میں دل کی دھڑکن
وہ صدائے اہلِ دل کیا، جو عوام تک نہ پہنچے

مرے طائرِ نفس کو نہیں باغباں سے رنجش
ملے گھر میں آب و دانہ تو یہ دام تک نہ پہنچے

نئی صبح پر نظر ہے مگر آہ، یہ بھی ڈر ہے
یہ سحر بھی رفتہ رفتہ کہیں شام تک نہ پہنچے

یہ ادائے بے نیازی تجھے بے وفا مبارک
مگر ایسی بے رخی کیا کہ سلام تک نہ پہنچے

جو نقابِ رخ اٹھا دی تو یہ قید بھی لگادی
اٹھے ہر نگاہ لیکن کوئی بام تک نہ پہنچے

انہیں اپنے دل کی خبریں، مرے دل سے مل رہی ہیں
میں جو اُن سے روٹھ جاؤں تو پیام تک نہ پہنچے

وہی اک خموش نغمہ ہے شکیل جانِ ہستی
جو زبان پر نہ آئے، جو کلام تک نہ پہنچے
(شکیل بدایونی)



مصنف کے بارے میں Admin

پیج ایڈمن اچھی خبریں اور اچھی اچھی پوسٹس آپ تک پہنچانے کے لئے کوشان ہے۔ ویب سیائیٹ سے متعلق اپنی رائے ہمارے فیس بک پیج پر جاکے دے سکتے ہیں۔ میج کانٹنٹ آپ کیسے لگتے ہیں اور کیا بہتری ہوسکتی ہے ہمیں ضرور بتائیں۔ شکریہ
«
اگلہ
جدید تر اشاعت
»
گزشتہ
قدیم تر اشاعت

کوئی تبصرے نہیں:

تبصرہ کریں



تازہ ترین خبریں